ہم سے وہ اجتناب کرتے ہیں
وہ حقیقت کو خواب کرتے ہیں
عشق ہے داستاں فناؤں کی
پھر بھی خانہ خراب کرتے ہیں
ہم بھی ہیں گمشدہ محبت کے
خود کو اب بازیاب کرتے ہیں
غم دئے مجھ کو بے حساب اس نے
جانے کیوں اب حساب کرتے ہیں
حال میرا وہ پوچھتے ہیں جو
وہ مجھے لاجواب کرتے ہیں
مجھ میں جو پختگی سی آئی ہے
غم مرے اب حجاب کرتے ہیں
ہے عجب بات جو ہمایوں وہ
یاد تجھ کو جناب کرتے ہیں
ہمایوں

0
14