حق و باطل جو ٹکراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تباہی اک بڑی لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
کیا مصلوب ، جھوٹا کہہ کے ، دنیا نے ، مسیحا کو
فلک پر بھی وہی جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
عصا ڈالا تھا موسٰی نے کہ سانپوں کو نگل جائے
مگر مجمع ہی گھبراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
مقابل پر بلایا اس نے دعوت دے کے دشمن کو
کوئی کم سامنے آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
صداقت کے دلائل پیش کر بیٹھے ہیں ایواں میں
حقائق کو وہ جھٹلاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
خزائن جو کئے ہیں پیش اب آ کر مسیحا نے
زمانہ ان کو ٹھکراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
کتاب اس کی ہو بات اس کی یا کوئی ہو خطاب اس کا
کئی آنکھوں کو چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
ہوئی ہو آبیاری جس کی خود مولٰی کے ہاتھوں سے
کہاں پودا وہ مرجھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
غلاموں کی عقیدت دیکھ کر آقا سے حیراں ہیں
سر اپنا ان کو چکراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
اسی کے نام سے منسوب ہیں طارق مری غزلیں
جنہیں دیکھو ، جہاں گاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

0
51