یہی دستور سنتے آئے ہیں اب تک زمانے کا
گرا جو آشیاں سوچے گا واپس کون رکھنے کا
نہیں اس کے سوا حق نقطہ چینی کا کسی کو بھی
وہی لے امتحاں ہو تجربہ جس کو پرکھنے کا
کٹہرے میں وہی لائے جو دامن صاف رکھتا ہو
نہ ہو امکان بھی جس پر کسی انگلی کے اٹھنے کا
سُنو گر حوصلہ تنقید سننے کا بھی رکھتے ہو
نرا لفّاظی ہی مقصد نہیں ہے شعر کہنے کا
فقط ذکرِ گُل و بلبل نہ ہو پیغام ہو کوئی
سبق جس سے ملے کوئی یہاں مل جُل کے رہنے کا
اگر لفظوں میں سچ کو جھوٹ ثابت کر دیا جائے
تو پھر معیار ہے یہ قوم کے اخلاق گرنے کا
مرے الفاظ تب اشعار کی صورت میں ڈھلتے ہیں
تسلّی دل کو دے جب تجربہ سچ کو پرکھنے کا
جو بیٹھے آئینے کے سامنے گھنٹوں لگاتے ہیں
ودیعت ان کو قدرت نے کیا جذبہ سنورنے کا
مگر جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے سنوارا ہے
نہیں محتاج وہ ہوتا کسی صورت بھی گہنے کا
مجھے سچائی کی خوشبو ہمیشہ اچھی لگتی ہے
اگر چہ پیش کر دے کوئی جھوٹا پھول سونے کا
کہاں تک ہم نے جانا ہے مسافر دو گھڑی کے ہیں
نہ جانے وقت کب آ جائے گاڑی سے اترنے کا
مگر حق بات طارق تم یونہی کہتے چلے جانا
سنے گا حوصلہ جس کو بھی ہو گا کان دھرنے کا

0
22