دل یہ چاھتا ہے کہ
حبس زدہ دن کی
ساری تکان تیرے زانُو پہ سر رکھ کر زائل کر دوں
تُو بے اختیاری میں
میرے اُلجھے ہوئے بکھرے ہوئے بالوں میں
اپنی ملائی سی رنگت والی
حنائی اُنگلیاں پھیرتی جائے
اور
پلکیں اس آرام دہ نشست کے کیف سے
خُود بخُود بند ہو جائیں
ذہن میں اُترے
اک حلاوت ، اک ٹھنڈک ، اک نرماہٹ
جو کھینچ کر مُجھے کسی اور دُنیا میں لے جائے
جی چاھتا ہے کہ
کوئی ایسی شب ہو میسر ہمیں
جس شب کی پرُوائی سے
مہک ملے تیرے پسینے کی
تمہاری معطر سانسیں
مُجھ پہ گُلستانوں کی خُوشبُو بن کر بکھریں
تمہارا لمس
میرے بدن پہ لباس کی بجائے ہو
تمہاری رعنائیاں میرے حواس کو مختل کر دیں
تمہاری نگاھیں میرے اندر تک پہنچیں اور مُجھے صندل کر دیں
تمہارے لب میری گردن پہ آوارہ پھریں
تمہاری بانہیں میری تنہائیوں کا سہرہ بنیں
لیکن
دل کے چاھنے سے کیا ہوتا ہے
بھلا اک نیچ ذات کے حقیر بشر کا
سادات کی رانی سے کیا میل ....
مگر دل کو چاہنے سے بھی تو روکنا محال ہے
دل تو چاھتا ہے اور چاھتا رہے گا ہمیشہ...
فیصل ملک!

0
216