ہر حُسن ہے مدحتِ روئے نازنیں |
بُوئے زلفِ دلبریں، مثلِ عنبریں |
پنہاں ہے عالم سے جانِ جاں تُو کہیں |
آ کبھی تو طُور پر اے پردہ نشیں |
لو چلے اب عالمِ مدہوشی میں ہم |
ہو گئے وہ آج ملبوسِ مرمریں |
اب دلِ مردہ کو کیا سینے میں رکھیں |
بعد تیرے تو یاں رہتا کوئی نہیں |
کر لہو سے اے مِرے قاتل صاف تو |
رہ نہ جائے تیغ پر داغِ خوں کہیں |
معلومات