| تو جو چاہے ترے ہر لفظ سے خوشبو آئے |
| پھر ضروری ہے تجھے میر سی اردو آئے |
| رنگ اڑ جائے گا اے باد بہاری اسکے |
| بھول کر تو لب و رخسار اگر چھو آئے |
| خوب ہے، خوب نہیں، ہوجو تری جلوت میں |
| ایک دنیا، مری خلوت میں اگر تو آئے |
| خشک آنکھوں کی ہوئی جھیل تری، سینے کی |
| ہم کبھی آگ بجھانے جو لبِ جو آئے |
| دھوپ چمکی تو لئے چھاؤں کا ساماں، تیرے |
| شام کا روپ بھرے سایہِ گیسو آئے |
| کیا قیامت ہے چمن تیرے چمن سے کوئی |
| چہچہانے کی صدا آئے نہ کوکو آئے |
| میرا اندر مرے اندر سے اجل جائے گر |
| دل کی گہرائی سے آوازہِ ہوہو آئے |
| وہ حبیب اپنی رگِ جاں کے قریں تھا یارو |
| ڈھونڈ کر جس کو زمانے میں ہر اک سو آئے |
معلومات