نظریں جھکی ہوئی ہیں پہلو بدل رہے ہیں
میرا گماں ہے ان کے ارماں مچل رہے ہیں
ساقی نے میکدے میں کیا ایسی بات کہہ دی
بے ہوش سونے والے اٹھ کر سنبھل رہے ہیں
ماں باپ کی وراثت بچّوں نے مِل کے بانٹی
وہ چل بسے ہیں مرتے یہ مرتے چل رہے ہیں
نہ تم وہاں پہ پہنچے نہ مَیں وہاں پہ آیا
یہ آگ ہے تو کیسی کیوں لوگ جل رہے ہیں
مَیں بھی وہاں کا باسی وہ بھی وہاں کے ساکن
مَیں پھول بیچتا ہوں وہ پھول پھَل رہے ہیں
کس نے کہا تھا تم سے ظلم و ستم روا ہے
یہ دارِ آخرت ہے نقشے بدل رہے ہیں
جیسا وطن کو چھوڑا اب اس سے بھی سوا ہے
لیڈر سے پوچھ دیکھو چشمے نکل رہے ہیں

0
83