اپنی مردانگی کو آج ڈبویا جائے
بیٹھ کے دریا کنارے کہیں رویا جائے
میں نے بچپن سے پیے غم مگر اب سوچتا ہوں
بھر گیا ہوں کہاں اب ان کو سمویا جائے
داغ دامن پہ لگے ہیں نہیں دکھتا کچھ بھی
خوب مل مل کے اسے اچھے سے دھویا جائے
نیند سے قطع تعلق ہے میرا صدیوں سے
یادوں سے قطع تعلق ہو تو سویا جائے
درد پیوند کے قابل نہ رفو کے قابل
اک نئے درد کا اب بیج ہی بویا جائے

32