اپنی مردانگی کو آج ڈبویا جائے |
بیٹھ کے دریا کنارے کہیں رویا جائے |
میں نے بچپن سے پیے غم مگر اب سوچتا ہوں |
بھر گیا ہوں کہاں اب ان کو سمویا جائے |
داغ دامن پہ لگے ہیں نہیں دکھتا کچھ بھی |
خوب مل مل کے اسے اچھے سے دھویا جائے |
نیند سے قطع تعلق ہے میرا صدیوں سے |
یادوں سے قطع تعلق ہو تو سویا جائے |
درد پیوند کے قابل نہ رفو کے قابل |
اک نئے درد کا اب بیج ہی بویا جائے |
معلومات