کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی ایسے فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہیں سے پھر کوئی بھٹکا ہوا سا تیر آ جائے
سزا ہم کو ملے یوں ساتھ ان کا پھر نبھانے کی
کہ پھر سے دل کے آنگن میں کوئی ہلچل سی مچ جائے
ضرورت پھر سے پڑ جائے جو سازِ غم بجانے کی
وفاؤں کو کچلنے کا وطیرہ پھر سے دیکھیں ہم
ستم کرنے کی ہے کتنی سکت ظالم زمانے کی
بنا لو رابطہ مجھ سے محبت کے علاوہ بھی
وجہ کچھ بھی تو بن جائے گی مجھ کو یوں ستانے کی
بدل لے سوچ اپنی تو ہمایوں ورنہ ہے مشکل
تجھے یوں کیا پڑی ہے دکھ زمانے کے کمانے کی
ہمایوں

0
34