ہم اہلِ وفا کی قسمت میں پھر بہتے لہو کا دریا ہے
جو ظلم کے رستے آیا تھا، اسے خاک میں آخر ملنا ہے
قدموں کی صدا میں چھپتی ہے تاریخ کی ہر اک سرگوشی
یہ رستہ شہادت کا دل نے اب سوچ سمجھ کے چاہا ہے
جو شوقِ وفا دل میں اٹھے، وہ خوف کبھی لاتا ہی نہیں
صدیوں سے چھائی راتوں میں اب صبح کا سورج چمکا ہے
باطل کے مقابل سینہ سِپر، ہر موج بھی ہم سے ڈرتی ہے
طوفان بھی پیچھے ہٹتا ہے، جب عشقِ جنوں آگے بڑھتا ہے
بازو میں نئی اک طاقت ہے، دل عشقِ وطن سے روشن ہے
جو ناحق خون بہا تھا یہاں، اسے خون سے ہم نے دھویا ہے
حق بات پہ سر کا جھکنا کب، ہم اہلِ جنوں سے ممکن ہے
باطل سے بھی جو ٹکرا جائے، وہ عزمِ شھادت اٹھا ہے
دشمن کی نظر میں خار ہیں ہم، یہ شوق ہمیں تسکین بھی دے
خنجر کی نوک پہ ہر لمحہ، یہ جذبہ دل میں بستا ہے
چاہت کا جو سودا دل میں ہو، پھر خوف کوئی کب رکتا ہے
ہم آگ کے دریا پار کریں، جب عشق کا دریا بہتا ہے
جو نعرہ حق کا لگا یا ہے، وہ چاروں طرف پھر گونجا ہے
تاریخ بھی خود حیران ہوئی، یہ عشق کہاں سے اٹھا ہے
طغیانی ہو یا قہرِ عظیم، نہ اپنا ارادہ بدلے گا
اس خاک میں مِل کر سو جانا، تقدیر میں یوں ہی لکھا ہے

0
32