اُس ترے شہر میں جائیں بھی تو جائیں کیسے
راستے میں ہے بلا ، کرب چھپائیں کیسے
ان دنوں اور بھی چرچا ہے تری رنجش کا
تُو جو ناراض ہے اب تُجھ کو منائیں کیسے
ہم تو بے بس ہیں فقط یاد کئے جاتے ہیں
تیرے احسان ہیں اتنے کہ بھلائیں کیسے
ہم جو توبہ کی بھی تو فیق تجھی سے پائیں
ہم ترے در پہ نہ آئیں تو نہ آئیں کیسے
تُو نے سب کام ہمارے ہیں سنوارے ہر دم
اب کے بگڑی کو بنائیں تو بنائیں کیسے
راستہ چلتے بھی اب بھیڑ ہوئی جاتی ہے
سانس لینے کی بھی تکلیف اٹھائیں کیسے
ہم ترے سامنے جھکتے ہیں تو چین آتا ہے
غیر کے سامنے اب سر کو جھکائیں کیسے
طارق اب تجھ سے کہے ، رحم کی بارش کر دے
تشنہ لب روح کی ہم پیاس بجھائیں کیسے

0
128