رفتہ بہ رفتہ کھل گئے جتنے کمال تھے
اس کے کہے ہوئے سبھی جملے کمال تھے
اس عمر کا نشہ تھا شرابوں سے بھی سوا
دیکھے تھے ان دنوں جو وہ سپنے کمال تھے
کرتے تھے کس قدر وہ بزرگوں کا احترام
کتنے ہمارے دور کے بچے کمال تھے
گو حسن ماند کر رہے تھے شہر کا مگر
دیوار پر بنے ہوئے نقشے کمال تھے
عزت سے پیش آتے تھے ہر اجنبی کے ساتھ
اس شہر کے مکین بھی کتنے کمال تھے
عشاقِ ہجر زاد نے محبوب کے لیے
لکھے فصیلِ شہر پہ جملے کمال تھے
ہر شخص ہو چکا تھا اسیر اسکے حسن کا
اس حسنِ بے مثال کے جلوے کمال تھے
اک دوسرے کو مارنا پھر روٹھنا بہت
وہ بچپنے کے جھگڑے بھی کتنے کمال تھے
میرا تو کوئی شعر کسی کام کا نہیں
اس نے تھے جو سنائے وہ نغمے کمال تھے

20