انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے
ووٹوں کے بِھکاری در پے کھڑے،اِیقان سبھی کا بھانپیں گے
نوٹوں کے پُجاری در پے کھڑے، ایمان سبھی کا جانچیں گے
ہاں ووٹ ذرا سنبھل کر دیں، اکثر ہی یہاں تو قاتل ہے
انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے
روداد کبھی جو سن نہ سکے، غمخوار کبھی جو بن نہ سکے
حق بات کبھی جو کہہ نہ سکے، ہمدرد کبھی جو رہ نہ سکے
ظلمت کے محل آباد ہوئے، مظلوم فقط اک سائل ہے۔
انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے
رو روکے منائیں گے سب کو، دُکھرا بھی سنائیں گے سب کو
آنسوں بھی دکھائیں گے سب کو، اپنا بھی بنائیں گے سب کو
ظلمت کے گھنے سایوں کے تلے؛ ہرسچ کا مقدر گھائل ہے
انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے
دعوے ہیں سبھی اِن کے جھوٹے، وعدے ہیں سبھی اِن کے ٹوٹے
سب کام سدا اِن کے کھُوٹے، لوگوں کو سدا ہیں یہ لوٹے
اٹّھا تھا صدائے حق جو لیے، وہ آج ستم کا حامل ہے  
انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے
جھانسے میں کبھی بھی مت پڑنا، ایمان کا سودا مت کرنا
یہ ٹھان لیں حق پے ہے مرنا، باطل کے مقابل ہے لڑنا
باطل کی ہراک دیوار گرے، یہ عزْمِ منور کامل ہے
انصاف ہمیں اب کیسے ملے؟ منصف ہی یہاں جب قاتل ہے
امید بھلا اب کیسے رہے ؟ رہبر ہی یہاں جب باطل ہے۔

0
15