مدینہ مدینہ صدا آ رہی ہے
مدینے سے شاید ہوا آ رہی ہے
میں قُربان جاؤں مدینے کے داتا
خلق جود تیرے کے گُن گا رہی ہے
اے آقا مجھے بھی بلالیں مدینے
گھڑی ہجر کی ہے، جو تڑپا رہی ہے
حریمِ خدا میں قدم تھے نبی کے
ہے النَجم سُورہ جو فرما رہی ہے
نبی کے ترانے ہیں فطرت میں ہر جا
سنیں بات، قدرت جو، سمجھا رہی ہے
یہ اعلیٰ سے اعلی، نبی کے ہیں، رُتبے
کتاب اللہ، سب سے، یہ فرما رہی ہے
نبی کا فَخر تھا، فقیری جہاں میں
ہے باڑا جو اُن سے، دہر کھا رہی ہے
سِسکتی ہے سِدرہ، حسیں کے حُسن کو
یہی دید سالک کو ترسا رہی ہے
حسیں نورِ یزداں ہے گھیرے دہر کو
تجلیٰ دل و جاں کو چمکا رہی ہے
یہ عیار دُشمن سے، پالا پڑا ہے
ہے مُشکل میں اُمت، جو گھبرا رہی ہے
وہ رحمت ہیں محمود کُونینِ رب پر
ہے قرآں میں آیہ، جو فرما رہی ہے

1
18
ہے پرواز طیبہ میری سوچ کی

0