| تو کیا ہوا جو اُس کو |
| محبت نہیں رہی |
| دولت کے کھیل میں مری |
| ایک نہ چلی |
| تو کیا ہوا ضرورت و ثروت نہیں رہی |
| سورج ہو سامنے تو مہِ شب کا کیا کریں |
| تو کیا ہوا جو گُل سبھی مرجھا گئے سے ہیں |
| خوشبو ہے رنگ سارے ہیں، |
| عطرت نہیں رہی |
| تو کیا ہوا کہ آنکھ اُس نے پھیر لی ہوئی |
| تو کیا ہوا کہ آنکھ میں اب روشنی نہیں |
| تو کیا ہوا کہ اُس کے ہونٹ ہم سے ہیں نالاں |
| موسم ہمیشہ ایک سا رہتا نہیں کبھی |
| مسکان اُس کی آج بھی مثلِ بہار ہے |
| تو کیا ہوا مسکان کی وجہ بھی میں نہیں |
| تو کیا ہوا جو زندگی میں زندگی نہیں |
| تو کیا ہوا کہ موت سے پہلے ہی مر گئے |
| سچ کڑوا ہوتا ہے مگر ہوتا ہے لازمی |
| پیسے نہ ہوں تو بے سبب ہوتا ہے آدمی |
معلومات