وقت جیسے تھم گیا ہے اسکے گھر جانے کے بعد
سیڑھیاں خاموش ہیں اسکے اتر جانے کے بعد
زخم سارے بھر گئے تھے اس نے جیسے ہی کہا
اچھا دیکھو پھر ملیں گے زخم بھر جانے کے بعد
چال جن کی شاعری میں ہے امر وہ ہرنیاں
رقص میں رہتی ہیں تجھکو دیکھ کر جانے کے بعد
اسکے پہلو تک گئے تو پھر یہ اندازہ ہوا
کیوں نہ اترائے زمانہ چاند پر جانے کے بعد
مسکرانے سے تمہارے گال پر کھلتا ہے پھول
پھول جو گرتا نہیں موسم گزر جانے کے بعد
جن کی آنکھوں میں بسے تو ہوش میں رہتے نہیں
ہوش میں کیسے رہیں دل میں اتر جانے کے بعد
رس بھری آواز میں اس نے کہا حیدر سنو
یہ غزل اتری تھی میرے چھوڑ کر جانے کے بعد؟

0
12