کسے خبر ہے کہ عمر اپنی یہ سوچنے میں گزر رہی ہے
میں یاد اس کو تو کر رہا ہوں وہ کیا مجھے یاد کر رہی ہے
تمہیں جو تلقین ہم کیے تھے وہ یاد ہے تو بتاؤ ہم کو
ہوا چلی تو تمہاری کیا زلف یار اب بھی بکھر رہی ہے
نہیں لگا کال جب تمہارا تو مجھ کو ایسا گمان آیا
تو میرا نمبر ملا رہی ہے تو فون مجھ کو ہی کر رہی ہے
میں ایک بے رنگ سا پرندہ وہ ایک قوسِ قزح کی صورت
وہ رنگ اپنی حیات سے لے کے میرے جیون میں بھر رہی ہے
اذیتیں ، مشکلیں ، پریشانی ، اضطرابی ، یہ سوچنا ہے
وہ میری تعبیر کب بنے گی جو روز خوابِ سحر رہی ہے
تمہارا چہرہ ہے دن سنہرا تو آئے مٹ جائے سب اندھیرا
تمہارے آنے سے یوں لگے آسماں سے رحمت اتر رہی ہے
مرا لڑکپن بھی کھو گیا تھا مری جوانی بھی مر رہی ہے
میں اور امید کیا لگاؤں یہ زندگی مختصر رہی ہے
گزرتے رستے میں روشنی یہ جو ہاتھ تھامے ہوئی ہے میرا
وہ مجھ سے پہلے بھی جانے کتنوں کی راہ کی ہمسفر رہی ہے
بلا کا آنگن، غموں کی دیوار ، چھت مصیبت یہی نہیں بس
اداس لوگوں کی سب اداسی حضور میرے ہی گھر رہی ہے
میں تجھ کو مانگا تمام راتیں خدا سے کی ہے تری ہی باتیں
صنم تو مجھ کو بھی مانگ رب سے تری دعا میں اثر رہی ہے
وہ جیسے محلوں کی ایک رانی ، میں ایک بنجارہ ، یہ سبب ہے
امیر لڑکی غریب خالدؔ سے بات کرنے میں ڈر رہی ہے

0
69