دن قیامت کے بھی نزدیک آتے ہوئے
اب نشانی کی جھلک بھی پاتے ہوئے
کبریٰ ساری تو علاماتیں بیشتر
کس طرح پوری بھی ہوتی جاتے ہوئے
گر بکھر جائے کبھی شیرازہ یہاں
کب تلک بیدار سے ہم ہوتے ہوئے
الجھنیں پیچیدہ، کافی دشواریاں
مرحلے سنگین رخ کو لیتے ہوئے
عظمتیں پامال کیسے کر دی گئیں
کس نشہ میں چور آخر رہتے ہوئے
بھول کر ناصر سبق بیٹھے بھی کیوں؟
کچھ اعادہ بھی مگر نہ کرتے ہوئے

0
91