اے اہل ظرف عشرتِ عریاں کو دیکھنا
ہوتی ہَوا بَضد ہے چراغاں کو دیکھنا
اہلِ قفس رسن کو نہ زنداں کو دیکھنا
پھر سحر کے ستارہِ افشاں کو دیکھنا
سامان کر رہا ہوں عدالت کے قتل کا
جلاد دار پر مری ایما کو دیکھنا
کرنی ہے بس تصورِ جاناں میں رات صرف
مجھ جو نہیں خدا کو نہ بھگواں کو دیکھنا
مدت ہوئی ہے مشقِ تخیل کئے ہوئے
اک عمر کے عذاب کے درماں کو دیکھنا
پھر دیکھتا ہے عکس وہ شیشے کے سامنے
ہم کو پھر آئینے کے ہے ایماں کو دیکھنا
ہوتا ہے پھر جگر میں نہاں دلربا کا تیر
راس آ رہا ہے آپ کے مژگاں کو دیکھنا
دیکھیں گے اس طرف نہ کبھی بھی اٹھا کے آنکھ
حیدر نہیں ہے قدرتِ یزداں کو دیکھنا

0
7