جھلسے ہیں کبھی ہاتھ کبھی پاؤں جلے ہیں
آغوش میں ہم آتشِ سوزاں کی پلے ہیں
کیا نرم طبیعت جگر و دل، تنِ نازک
پوچھو نہ کہ سب یار کی تلوار تلے ہیں
کہتا ہے تو کہنے دے، نہ کر شیخ کی پرواہ
میکش ترے آگے کبھی پینے سے ٹلے ہیں
احساس نہ تھا وقت گزرنے کا شبِ وصل
ہجراں میں اک اک پل کے لیے ہاتھ مَلے ہیں
یہ داد، پزیرائی یہیں ڈھیر ہے، تنہاؔ
دامن تری محفل ہی میں ہم جھاڑ چلے ہیں

0
60