| ہمارے صحن میں جب خاروخس بکھرنےلگے |
| نحوستوں سے یہ دیوارودر بھی ڈرنے لگے |
| فُراتِ شوق دکھا دے اگر کوئ منظر |
| ہر ایک آدمی آنکھوں میں خون بھرنے لگے |
| ابھی تو دشت بہت دور ہے پر اہلِ جنوں |
| براہِ راست بگولوں کے رقص کرنےگے |
| الٰہی خیر ہو قسمت نے لی ہے انگڑائ |
| وہ آئینے کی طرف دیکھ کے سنورنے لگے |
| امیرِ شہر کو نیند. آرہی ہے ایواں میں |
| اسے خبر نہیں فاقوں سے لوگ مرنے لگے |
| بھنور میں آگئے راہی مگر گماں ہے کہ ہم |
| اترکے ناؤ سے دریا کے پار اترنے لگے |
معلومات