ہمارے صحن میں جب خاروخس بکھرنےلگے
نحوستوں سے یہ دیوارودر بھی ڈرنے لگے
فُراتِ شوق دکھا دے اگر کوئ منظر
ہر ایک آدمی آنکھوں میں خون بھرنے لگے
ابھی تو دشت بہت دور ہے پر اہلِ جنوں
براہِ راست بگولوں کے رقص کرنےگے
الٰہی خیر ہو قسمت نے لی ہے انگڑائ
وہ آئینے کی طرف دیکھ کے سنورنے لگے
امیرِ شہر کو نیند. آرہی ہے ایواں میں
اسے خبر نہیں فاقوں سے لوگ مرنے لگے
بھنور میں آگئے راہی مگر گماں ہے کہ ہم
اترکے ناؤ سے دریا کے پار اترنے لگے

83