بجھتا ہوا چراغ بھلا کیا دعا کرے
کہہ دو ہوا سے آج ذرا حوصلہ کرے
بندِ قبا جو کھول کے خوشبو صدا کرے
کیسے نہ چشمِ ناز کو یہ دل شفا کرے
جانے کہاں بچھڑ گئے تھے اپنی ذات سے
ہم کشت گان ہجر ہیں کوئی پتہ کرے
بیٹھا ہوا ہے پاس مگر پاس تو نہیں
کس نے اسے کہا تھا کہ ایسی وفا کرے
مانگے بغیر مانگ رہا ہے وہ دل مرا
ایسے میں کوئی شخص کرے بھی تو کیا کرے
بڑھنے لگی ہے تیرگی امکانِ ہجر کی
اس سے کہو کہ روشنی دل کی ذرا کرے
شائد اسی مقام پہ رشتہ تمام ہو
شاید وہ اپنی ذات سے مجھ کو رہا کرے
کہہ دو اسے کہ درد شناسائی ٹھیک ہے
لیکن ہر ایک بات نہ دل پر لیا کرے
خود اپنی ذات ہی نہیں ہےمعتبر ندیم
کیسے نگاہِ یار کوئی معجزہ کرے

0
77