یہ گلشن فیض القر آں ہے یہ علم کا گہرا سمندر ہے
اس گلشن کا ہر اک ذرہ خود علم میں ڈوبا گو ہر ہے
اسلامؔ کی قربانی سے یہاں اک علم کا چشمہ جاری ہے
ممتازؔ نے فکر گلشن میں کتنی راتیں یوں گزاری ہے
روشن ہے جسیرؔ کے جلووں سے ہر ایک درودیورار یہاں
ہر ذرہ نصیرؔ کی برکت سے ہوتا ہے گل گلزار یہاں
واعظؔ بھی یہاں اک شعلہ ہے اور علم کا اک میخانہ ہے
بچہ بچہ ہر ایک یہاں ان کا ہی بنا دیوانہ ہے
تنویرؔ و عزیزؔ و مرغوبؔ و انعامؔ سبھی بے مثالی ہے
اقبالؔ حذیفہ راسخؔ اور شاہ عالمؔ کی شان نرالی ہے
قائم ہے انجمن بزم ابرار کا اک مینار یہاں
کتنوں نے سنوارا ہے اس سے علمی ادبی معیار یہاں
یونسؔ کی دعا ہے صدیوں تک آباد رہے یوں یہ گلشن
ہر آنے والی نسلوں پر یہ بن کے رہے اب سایہ فگن

36