اس قدر بے بسی کی کبھی انتہا نہ ہو
یعنی کسی کا یار کسی سے جدا نہ ہو
روزِ جزا کے خوف سے جا کر ڈرا اسے
جس نے فراقِ یار کا صدمہ سہا نہ ہو
اک دردِ عشق ہے کہ نہیں چھوڑتا کبھی
ورنہ کوئی مرض ہے کہ جس کی دوا نہ ہو
رستہ ہو عشق کا تو مقدر کے کھیل میں
ممکن ہی کس طرح ہے کوئی کربلا نہ ہو
آتے ہیں مجھ سے ملنے عیادت کے واسطے
یا رب مری دعا ہے کہ مجھ کو شفا نہ ہو
ہے عشق ایک ایسا معما جسے کبھی
سمجھا نہیں کوئی بھی جو خود مبتلا نہ ہو
ایسا نہ کر کہ آئینہ کوسے تجھے ترا
اور خود سے سامنے کا تجھے حوصلہ نہ ہو
میں نے تمھارے واسطے سب سے بگاڑ لی
کیسا ستم ہو یار کہ تُو بھی مِرا نہ ہو
اب تک جو ایک شکوہ ہے میری زبان پر
مَحْوِ دُعا رہو کہ یہ حرفِ دعا نہ ہو
اس شخص سے ڈرو کہ خدا اس کے ساتھ ہے
کون و مکاں میں جس کا کوئی آسرا نہ ہو
میری خود اپنی ذات اسامہؔ نہ ہو وہاں
یعنی وہ ساتھ ہو تو کوئی دوسرا نہ ہو

0
44