حسیں محفل کسی دن سجاتے ہیں
غزل اپنی تمہیں پھر سناتے ہیں
بلا کر تو کبھی دیکھنا ہم کو
کِیا وعدہ نبھا کے دِکھاتے ہیں
محبت ہو چلی رسمی ہے جب سے
"لگانے کو سبھی دل لگاتے ہیں"
بھروسہ اُن پہ ہرگز نہ کرنا ہے
دِکھاوے کے جو آنسو بہاتے ہیں
کریں پابندی اعمال کی ہر وقت
یہی شیطاں سے ہم کو بچاتے ہیں
مقامِ خاص جو پاتے ہیں بندے
دعائیں اپنی رب سے مناتے ہیں
اذیت جھیلنے والے ہی ناصؔر
اثر اپنا کبھی تو بتاتے ہیں

0
57