کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر |
مگر تھا دل کا اندھیرا نہ تیرہ شب پتھر |
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا |
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر |
جو وہ نہ مل سکا ان کو تو سجدہ کرنے کو |
پجاری لے گئے تھے اس کے گھر کے سب پتھر |
اگرچہ واقعہ گزرے یہ ہو گئے برسوں |
کہو تو گریہ و زاری سنو بہ لب پتھر |
جُدائی ایسی ہوئی باپ کی تھی بیٹے سے |
کہ انتظار میں آنکھیں ہوئی تھیں تب پتھر |
سوال اس نے کیا بھائیوں سے یوسف کا |
جواب اس کو بھلا دے سکے تھے کب پتھر |
نہ جانے کیسے یہ قسمت پہ ہوں اثر انداز |
کہ پہنے جاتے ہیں انگلی میں اب غضب پتھر |
احد پہاڑ کے وہ خوش نصیب تھے کتنے |
رسولِ پاک کے آ ئے تھے جو عقب پتھر |
جہاں نماز پڑھائی گئی تھی نبیوں کو |
نشاں ہیں قبلۂ اوّل کے با ادب پتھر |
طواف کرنے گیا جب حرم تو دیکھ لیا |
وہاں تو روندتے ہیں لوگ روز و شب پتھر |
نصیب کیسا ہے اُس کا ہر ایک چومتا ہے |
ہے ایک کونے میں کعبے کے جو عجب پتھر |
جہاں میں پھولا سماتا نہیں ہے وہ طارق |
وہاں پہ چھُو گئے جس کے بھی دست و لب پتھر |
معلومات