دھند میں پیدا ہوئے پھر دھند میں لپٹے رہے |
خود کے ہو کر رہ گئے پھر خود میں ہی سمٹے رہے |
خود کو کیا تعمیر کرتے خواب تھے ٹوٹے ہوئے |
علم منزل کا نہیں تھا عمر بھر بھٹکے رہے |
جسم تھا اپنا حرم میں روح میخانے میں تھی |
کچھ سمجھ میں ہی نہ آیا درمیاں لٹکے رہے |
خوف انجانا سا تھا ہم عمر بھر سہمے رہے |
کچھ خیالی حادثوں کے ہر گھڑی کھٹکے رہے |
سکھ کا اک پل سانس شاہدؔ اپنی قسمت میں نہ تھا |
زلزلے رک بھی گئے پر عمر بھر جھٹکے رہے |
معلومات