دھند میں پیدا ہوئے پھر دھند میں لپٹے رہے
خود کے ہو کر رہ گئے پھر خود میں ہی سمٹے رہے
خود کو کیا تعمیر کرتے خواب تھے ٹوٹے ہوئے
علم منزل کا نہیں تھا عمر بھر بھٹکے رہے
جسم تھا اپنا حرم میں روح میخانے میں تھی
کچھ سمجھ میں ہی نہ آیا درمیاں لٹکے رہے
خوف انجانا سا تھا ہم عمر بھر سہمے رہے
کچھ خیالی حادثوں کے ہر گھڑی کھٹکے رہے
سکھ کا اک پل سانس شاہدؔ اپنی قسمت میں نہ تھا
زلزلے رک بھی گئے پر عمر بھر جھٹکے رہے

0
52