پیارا سا چہرہ دل میں سماتا ہوا گیا
معصوم سی ادا سے لبھاتا ہوا گیا
خدمت کی آرزو بھی پنپتی چلی گئی
آثار شوق کے یہ دکھاتا ہوا گیا
دلکش سے پھول ہیں، کھلیں تو بیشتر مگر
ہر رنگ کا الگ مزہ آتا ہوا گیا
غنچہ نے مسکراتے غموں کو پلٹ دیا
ہمت سے ہاری پاری کو جیتا ہوا گیا
ناصر ذرا ٹھرا ہے، تصور کئے ہوئے
ناکامیابی کی وجہ پاتا ہوا گیا

83