زمانہ میں تجھ سا نہ کوئی حسیں ہے
ترا ہی تو چہرہ فقط دل نشیں ہے
جگر میں یہی درد و غم جاگزیں ہے
"سنائیں اسے کیسے سنتا نہیں ہے"
لیاقت اجاگر کريں اپنی پہلے
گڑھے سر پہ تب اپنے تاج و نگیں ہے
نہ دولت نہ طاقت، شرافت ہے اعلی
وہی بازی جیتے جو خندہ جبیں ہے
ہے کیوں مبتلا یاس میں تو اے دہقاں
اگر نم ہو تو کار آمد زمیں ہے
بے شک علم و فن نے یہ تاثیر چھوڑی
گلی کوچہ چین و سکوں کا امیں ہے
رہیں کرتے ناصؔر سعی مسلسل
مقدر سنور جائے پختہ یقیں ہے

0
41