شعلہ بھڑکنے والا ہے بجھتے شراروں سے
دریا نکلنے والا ہے اپنے کناروں سے
نغمۂ آذادی سُن رہا ہوں میدانوں سے
دیکھا بلند جنوں کا شعلہ پہاڑوں سے
جنگل میں پھر خوف کا عالم طاری ہے
شیر نکل آۓ ہیں اپنی کچھاروں سے
آئیں گی خشبوئیں صبحِ نوید ساتھ افری
اپنا چمن ہو گا آباد بہاروں سے

0
17