دل تو دیتا ہے صدا کچھ کیجئے
وقت یوں ہی کٹ گیا کچھ کیجئے
ان کے گھر جا کر منا کر آ ئیے
یا یہیں ردِبلا کچھ کیجئے
کوئی حق مارا نہ ہو مخلوق کا
دور لوگوں کا گلِا کچھ کیجئے
ان کو اپنے گھر میں دعوت دیجئے
یا کہیں باہَر مزا کچھ کیجئے
ابتدا ہو گی تو ہو گی انتہا
کام تو اپنا بھلا کچھ کیجئے
اوّل اوّل کا نشہ جاتا نہیں
کی محبّت تو پیا کچھ کیجئے
عشق کو ثابت قدم دیکھا ہے جب
حسن کو کہنا پڑا کچھ کیجئے
آدمی لگتے ہو طارق کام کے
جس نے دیکھا یہ کہا کچھ کیجئے

0
88