| خامشی چیختی ہے غم کا بیاں ہوتا ہے |
| درد ایسے مِرے اندر کا عیاں ہوتا ہے |
| یوں نہیں ہجر میں تیرے ہو گئے ہیں تنہا |
| لاکھوں ہیں اِک بھی مگر تجھ سا کہاں ہوتا ہے |
| غم کے اظہار کو ہیں دنیا میں حیلے کتنے |
| ہائے وہ دکھ جو خموشی میں نہاں ہوتا ہے |
| سو دلائل ہوں مِرے پاس مِرے حق میں بھلے |
| سچ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کا گماں ہوتا ہے |
| لمحے سب میرے میں جو کر دوں تِرے نام اگر |
| وقت گنتی میں مِرا کیسے زیاں ہوتا ہے |
| پہلے پہلے تو توُ رہتا تھا نگاہوں میں مِری |
| اب ٹھکانا ہے کہاں تیرا جہاں ہوتا ہے |
| شعیب شوبیؔ |
معلومات