لرزہ بر اندام ہے دیوار ِدل
اور بڑھتی جائے ہے رفتارِ دل
پہلے بھی ٹوٹا ہزاروں مرتبہ
اب کے گہری چوٹ ہے معمارِ دل
کون کوئی کیسے، کب تک ،کس طرح
کیوں سنبھالے گا مجھے مختارِ دل
اب دکاں شاید بڑھانی ہی پڑے
بند ہوتا جائے ہے بازارِ دل
اپنے ہاتھ آیا نہیں یہ عمر بھر
کیا کہیں کیسا رہا کردارِ دل
پوچھنا تو چاہیے اس سے صمیم
اب جیے گا کس طرح بیمارِ دل

0
119