سرکار مصطفیٰ جب در پر بلائیں گے
پھر رازِ دل سخی کو آنسو سنائیں گے
زادِ سفر نہیں ہے راہوں سے بے خبر
ہر کام میرے محسن میرا بنائیں گے
ان جالیوں سے میں بھی پلکیں لگاؤں گا
اس آس میں کے آقا تشریف لائیں گے
مسجد میں بیٹھوں گا پھر اس انتظار میں
دیدار پیارے دلبر اپنا کرائیں گے
صورت یہ مصطفیٰ کو کیسے دکھاؤں گا
چھپ کر میں دیکھ لوں گا وہ مسکرائیں گے
قابل نہیں ہوں اس کے دیدار کر سکوں
چاہوں مگر وہ اپنا چہرہ دکھائیں گے
ہیں قبر حشر میزاں دشوار گھاٹیاں
یہ پار منزلیں سب ہادی کرائیں گے
چہرے پہ میرے یارو اوڑھے نقاب ہو
آقا لحد پہ میری تشریف لائیں گے
پوری خبر نبی کو میدانِ حشر کی
دامن میں مصطفیٰ ہی امت چھپائیں گے
جرم و گناہ سے گو نامہ ہے داغ دار
اس پار پل سے مجھ کو رہبر لے جائیں گے
کب نام ہے بھلوں میں کب کام ہیں بھلے
محمود ان کو یہ منہ کیسے دکھائیں گے

68