راہوں کو خار پایا ہر دل کو خوار پایا |
ہم نے نہ پیار پایا نے اعتبار پایا |
جن کو بہت گماں تھا چاہت پہ اپنی ہر دم |
ان کو ہی ہم نے اکثر یاں اشکبار پایا |
گزری ہے تنہا دیکھو یہ زندگی ہماری |
افسوس ہے کہ ہم نے اک بھی نہ یار پایا |
مدہوش عشق میں تھے جب ہم کو ہوش آیا |
سینے کو چاک دیکھا دل کو فگار پایا |
ہم کو تو کچھ بتاؤ کیا بات ہوگئی ہے |
جب بھی ملیں ہیں تم سے تم کو بِمار پایا |
ہجراں کا بھی اثر کچھ ہوتا نہیں ہے دل پر |
ہمت سے حوصلے سے دل کو حصار پایا |
محنت کرو ہمیشہ بے خوف ہو کے غم سے |
جس نے بھی محنتیں کی اس نے وقار پایا |
دل کشتہ ہو گیا تھا لیکن ہے شکر تیرا |
تیرے سخن سے دل نے پھر سے شرار پایا |
دشمن یہ کہہ رہا تھا کیا ہم کو جانتے ہو |
تحقیق کی ذرا تو مشتِ غبار پایا |
حسانؔ مدتوں سے بستا اجڑتا دل تھا |
آخر اجڑ ہی جانا دل کا قرار پایا |
معلومات