عجیب کیوں تجھے لگتا ہے بولتا ہوں میں
کہ میٹھا رس ترے کانوں میں گھولتا ہوں میں
میں غور و فکر جو کرتا ہوں کائنات پہ خود
بتائے راز ہیں اس نے جو کھولتا ہوں میں
کسی کی آنکھوں سے پیتا ہوں مے جو عرفاں کی
نشے میں اُڑ کے فضاؤں میں ڈولتا ہوں میں
فریب کار بھلا اس کی قدر کیا جانیں
صداقتوں کے خزانے جو رولتا ہوں میں
یہ کہہ کے ڈال کے سوچوں میں وہ روانہ ہوا
کہ وہ خیال ہی جس کا نہ مول تھا ہوں میں
ہے اعتراض مرے بولنے پہ طارق کیوں
کہ جو بھی بات کروں پہلے تولتا ہوں میں

0
5