دل اداس ہے، دنیا بھی ادھوری لگتی ہے،
قسمتِ لب و رخسار سے بھی دوری لگتی ہے۔
دو دلوں نے بےحد تڑپایا ایک دوجے کو،
کچھ ورق تقاضے اور لاشعوری لگتی ہے۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا،
نیند راتوں کی میری اب ادھوری لگتی ہے۔
کچھ عجیب شام و سحر کے طریقے ہیں یاں پر،
سر پہ منزل کے پہنچتے ہی دوری لگتی ہے۔

0
30