| دل میں اپنے قیام ہو گا مرا |
| آج مجھ سے کلام ہو گا مرا |
| وہ جو ہے آسمان کی زینت |
| کل وہ ماہِ تمام ہو گا مرا |
| میں، کہ گمنام زندگی ہے مری |
| بعد مرنے کے نام ہو گا مرا |
| تو مسافر ہے اور منزل کا |
| تم سے کب ہاتھ تھام ہو گا مرا |
| روز آتا ہوں ڈھونڈنے جس کو |
| وہ دلِ شاد کام ہو گا مرا |
| تم نے دیکھا نہیں غزال کوئی |
| ہو نہ ہو، خوش خرام ہو گا مرا |
| جیسے ہوتا ہے اختتامِ غزل |
| بس یونہی اختتام ہو گا مرا |
| جو محبت سکھاۓ بندوں کو |
| مضطربؔ وہ امام ہو گا مرا |
معلومات