صفت آزاد خاکی ہوں رہوں کیوں کر میں بندش میں |
میں شاہؔی ہوں روایاتِ اسیری توڑ جاؤں گا |
دلِ کوہِ ہمالہ کو بھی دہلادے جو ہیبت سے |
بنا کر ذرۂ خاکی کو میں شہ زور جاؤں گا |
مرے بپھرے ہوئے موجوں کی طغیانی ذرا دیکھو |
کہ تند و تیز دریا کا بھی میں رخ موڑ جاؤں گا |
نہیں میں موجِ حیراں جو کہیں دب کر ہی رہ جائے |
وہ طوفاں ہوں سمندر میں مچا کر شور جاؤں گا |
مجھے روکو گے کیسے گلستاں کو خاک کرنے سے |
میں شعلہ ہوں بجھا بھی دو شرارہ چھوڑ جاؤں گا |
اگر اس گلستاں میں آشیاں نہ ہو تو کیا غم ہے |
بنا کر راہِ منزل پھر کسی بھی اور جاؤں گا |
معلومات