دل بہت بے قرار رہتا ہے
جسم تو بے حصار رہتا ہے
میں اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا
اس کا مجھ پر ادھار رہتا ہے
پاس میرے وہ ہے مگر پھر بھی
اس کا کیوں انتظار رہتا ہے
میں مسیحا ہوں دار چڑھ جاؤں
مجھ میں اک جانثار رہتا ہے
آخری شیر اب بچا آؤ
کرنا اس کا شکار رہتا ہے
ایک میں کوہسار سر کر لوں
ایک اور کوہسار رہتا ہے
خود کو جتنا بھی قید کرتا ہوں
پھر بھی مجھ میں فرار رہتا ہے
جانے کیوں میری آزمائش کا
مرحلۂ اعتبار رہتا ہے
تیر تو سب نکل گئے لیکن
پھر بھی کچھ آر پار رہتا ہے
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
بس یہی کاروبار رہتا ہے
سانس لینا ہوا یہاں مشکل
روح پر سخت بھار رہتا ہے
درد موجودگی کا حصہ ہے
غم سے دل پر خمار رہتا ہے
ہر نیا دن تراشتا ہے مجھے
اس لیے اک نکھار رہتا ہے
میری دیوار پر لکھا کس نے
گھر میں اک شرم سار رہتا ہے
اس سے ملنے کے بعد بھی شاہدؔ
میرا دل بے قرار رہتا ہے

0
77