امیرِ وقت ہے سکّہ جمانے روز آتا ہے
ہماری بے بسی پر مسکرانے روز آتا ہے
مجھے افسردہ کر دیتا مِرے ماضی کا اک قصہ
تصور میں حسیں چہرہ رلانے روز آتا ہے
زمانے میں بہت مشہور ہے جو بے وفا کرکے
وہی رسمِ وفا ہم کو سِکھانے روز آتا ہے
کبھی ہندو کبھی مسلم کہیں مندر کہیں مسجد
دلوں میں آگ نفرت کی لگانے روز آتا ہے
پڑوسی ملک کا دشمن تمہیں مسمار کردے گا
ہمارے ملک کا حاکم ڈرانے روز آتا ہے
میں برسوں سے چلا لیکن مِری منزل نہیں آئی
جو اندھا ہے مجھے رستہ دِکھانے روز آتا ہے
پسِ پردہ تباہی پر تصدق شادماں ہوتا
دِکھاوے کے لئے آنسو بہانے روز آتا ہے

80