ہوں خار کس کی نگہ میں کھٹک رہا ہوں میں |
ہوں اشک آنکھ سے کس کی ڈھلک رہا ہوں میں |
اب اُس کے آنے کا امکان ہی نہیں باقی |
نہ جانے کیوں ابھی رہ اُس کی تَک رہا ہوں میں |
کوئی تو آ کے مجھے روکتا یہ سمجھاتا |
اگر جُنوں میں خُرافات بَک رہا ہوں میں |
ثمر گرے تھے جو آندھی میں ہو گئے برباد |
لگا ہوں شاخ سے اب تک تو پک رہا ہوں میں |
کلام سن کے میں شاعر کو بھانپ لیتا ہوں |
سُخن شناس نہیں اس میں شک رہا ہوں میں |
عدُو جو گالیاں دینے کو کہہ رہا ہے ثواب |
سمجھ رہا ہے کہ شاید بھٹک رہا ہوں میں |
سفر کٹھن ہے کبھی ڈر تو یہ بھی لگتا ہے |
نہ صبح آنکھ کھُلی گر کہ تھک رہا ہوں میں |
ہے اس کے لطف و کرم کی نظر پڑی طارق |
سمیٹے چاہ کی خوشبو مہک رہا ہوں میں |
معلومات