نہ جانے راہ میں کیونکر اڑان چھوڑ گیا |
کہ شغلِ دہر میں تیرا دھیان چھوڑ گیا |
رفاقتوں کا اسے اس قدر بھی پاس نہ تھا |
زمین آئی نظر آسمان چھوڑ گیا |
اسے تلاش تھی پھولوں کی توڑ کر ان کو |
مرے لئے وہ فقط پھول دان چھوڑ گیا |
کوئی تو سائے میں خطرہ اسے نظر آیا |
کہ تپتی دھوپ میں وہ سائبان چھوڑ گیا |
ہوا نے زور لگایا تھا رُخ بدلنے کو |
سمجھ کے کوئی کھلا بادبان چھوڑ گیا |
بتاؤ اس کو نہ تیکھی نگاہ سے دیکھے |
چلا کے تیرِ نظر نیم جان چھوڑ گیا |
ہے تیرا واہمہ آسیب تجھ کو لگتا ہے |
ترے لئے ہی وہ خالی مکان چھوڑ گیا |
ترے لئے تو بسائی تھی اس نے یہ دنیا |
ہُوا یہ کیسے ترا مہربان چھوڑ گیا |
معلومات