پوری زمین پر کوئی اس سے بھلی نہیں
اس کی گلی سے خاص یاں کوئی گلی نہیں
یادیں تھیں یا کتاب تھی دیمک زدہ کوئی
مٹی کے جیسے بُھر گئی لیکن کھلی نہیں
اچھا تھا اس کا فیصلہ جو چھوڑ کر گئی
مٹی میں میرے ساتھ یاں وہ بھی رُلی نہیں
یہ زندگی سفید سی چادر کی مثل تھی
داغوں سے تھی بھری کبھی مجھ سے دھلی نہیں
مایوسیاں فضا میں ہیں شاعر ہی تھا ضرور
اس قبر پہ نجانے کیوں کوئی ظِلی٭ نہیں
شاہدؔ ٹھہر گیا ہے عجب موسمِ خزاں
پودے گلاب کے ہیں بہت اک کلی نہیں
٭تختی

47