بھلا پوچھے تو کوئی قوم و ملت کے سپوتوں سے
کہاں کھوئی حمیت جانے، غیرت کے سپوتوں سے
ندارد ہے، مودت بھی، مروت بھی، مسرت بھی
سبب آخر ہے کیا سمجھے اخوت کے سپوتوں سے
مصیبت میں ڈٹے رہنا ہی پایا ہے وراثت میں
نہ چھوٹے صبر کا دامن عقیدت کے سپوتوں سے
نہ ڈرنا ہو حوادث سے، نہ راہوں سے پلٹنا ہو
مقدر ہو درخشاں تب ہی عظمت کے سپوتوں سے
فنا کرتے ہیں جب ناموس اپنی قوم کی خاطر
زمانہ پیار پھر کرتا ہے عصمت کے سپوتوں سے
رخ طوفاں کو گر اپنی دلیری سے پلٹتے ہیں
دلی میلان ہوگا ایسے جرات کے سپوتوں سے
نہ حائل داخلی تفریق ہو ناصؔر نہ ہی رنجش
یہی ہے بس تمنا دل میں امت کے سپوتوں سے

0
33