سنو! اے اجنبی! پردیس کو ہی لوٹ چلو |
تم جسے ڈھونڈتے آئے ہو وہ یہ گاؤں نہیں |
جو بتاتے ہو تم اس گاؤں کا نقشہ، ہے غلط |
ٹھنڈے پانی کی یہاں نہر نہیں بہتی کوئی |
دھوپ ہی دھوپ ہے، پیڑوں کی گھنی چھاؤں نہیں |
جن درختوں تلے کہتے ہو کہ تم کھیلتے تھے |
کوئی بچپن نہیں، بھولی ہوئی یادیں ہیں یہ |
تم جسے جھولا جھلاتے رہے ہو بچپن میں |
گاؤں پورے میں نہیں ایسی کوئی اک لڑکی |
لا شعوری سی جوانی کی مرادیں ہیں یہ |
سنو! اے اجنبی! میری ہے یہاں عمر کٹی |
اور تم اس گاؤں کے بارے میں نہیں جانتے ہو |
اچھے خاصے ہو، تمھیں کس نے یہاں بھیج دیا؟ |
کسی انجان جگہ یوں ہی نہیں جاتے ہیں |
دیکھ لو خود یہاں اب تم کسے پہچانتے ہو؟ |
یوں ہی گھر گھر نہ رہو گاؤں میں پِھرتے، گھر جاؤ |
ایسے پِھرنے سے یہاں نظریں کئی ڈلتی ہیں |
خوبصورت ہو، جواں اور ہو پیسے والے |
گاؤں کی لڑکیاں معصوم ہوا کرتی ہیں |
کچی سڑکوں پہ بڑی گاڑیاں کب چلتی ہیں؟ |
اپنی یادوں کو فراموش کرو، ہیں بھی اگر |
زندگی نام نہیں مُڑ کے گھڑی دیکھنے کا |
تیز ہے وقت کی رفتار بہت، بڑھتے چلو |
گاؤں سے دُور نکل جاؤ، ہمیشہ کے لیے |
حوصلہ مجھ میں نہیں کوئی خوشی دیکھنے کا |
معلومات