صدی یہ بیسویں گذری
دہائی ساتویں یہ تھی
بہت سالوں سے عشروں سے
تھے بیس و بیس کے چرچے
بہت آسیں امیدیں تھی
بہت سی آرزوئیں تھیں
بہت منصوبے سنتے تھے
بہت سے کام ہونے تھے
بہت دعوے تھے وعدے تھے
بہت خاکے تھے سپنے تھے
کہ آنا بھی بہت کچھ تھا
کہ پانا بھی بہت کچھ تھا
یاں نورِ علم لانا تھا
جہالت کو بھگانا تھا
غریبی کو مٹانا تھا
حیاتی کو اٹھانا تھا
سبھی کے ساتھ چلنا تھا
کہ خطے کو بدلنا تھا
تھا مغرب سے نمٹنا بھی
تھا مشرق سے ابھرنا بھی
تعصب کو مٹانا تھا
اخوت کو جگانا تھا
کہ روتوں کو ہنسانا تھا
کہ روٹھوں کو منانا تھا
ہمیں تو قوم بننا تھا
ہمیں تو ساتھ چلنا تھا
مگر اے شو مئی قسمت
وہی ناکام سی حسرت
کہ بیس و بیس بھی گزرا
نہ کچھ بدلا نہ کچھ سنورا
وہی ایام کی گردش
وہی آلام کی یورش
وہی ٹوٹے ہوئے سپنے
وہی بگڑے ہوئے خاکے
کہ جھوٹے تھے جو وعدے تھے
کہ باطل تھے جو دعوے تھے
جو مغرب سے ہیں لرزیدہ
تو مشرق سے ہیں ترسیده
وہ نادیدہ بلائیں ہیں
وہ ان دیکھی وبائیں ہیں
وہی ناراض سے موسم
وہی پہلے سے رنج و غم
کہیں کس سے کہاں جائیں
کسے چھوڑیں کسے پائیں
سلیقہ باقی کہنے کا
نہ یارا باقی سننے کا
نہ توبہ ہے نہ پچھتاوا
نا فکرِ حال نا فردا
وہی منظر سرِ پردہ
وہی کچھ ہے پسِ پردہ
وہی کھیل و کھلاڑی بھی
وہ شاطر بھی اناڑی بھی
وہی آقا ہیں بندے ہیں
تماشے اور دھندے ہیں
تماشا قوم دیکھے ہے
نہ سوچے ہے نہ سمجھے ہے
کہ نامِ لا الہ پر جو
دیا تھا یہ وطن هم کو
ہے میثاقِ وفا توڑا
صراطِ لا الہ چھوڑا
فغاں کرتا ہوں میں تازہ
کھلے توبہ کا دروازہ
کرم ربِ جہاں ہم پر
کہ منزل کر عیاں ہم پر
صراطِ مستقیمی دے
کریمی دے رحیمی دے
وہ صدیقی محبت دے
وہ فاروقی عدالت دے
وہ عثمانی شرافت دے
وہ حیدر سی شجاعت دے
فقط رب کی اطاعت ہو
اسی کی حاکمیت ہو

0
14