اس نے کیا جو پیار کا اظہار مست ہوں
سن سن کے اپنے یار کی گفتار مست ہوں
اپنا سا پا کے یار سے میں پیار مست ہوں
مجھ کو بنایا یار نے ہے یار مست ہوں
مستانہ ہو کے یار مجھے دیکھنے لگا
پا کر میں اپنے یار کا دیدار مست ہوں
بس اس کے دیکھنے کی ہی مستی میں مست ہوں
وہ دیکھے بار بار میں ہر بار مست ہوں
ہے راز میری دائمی مستی کا دوستو!
آنکھیں ہویں ہیں یار سے دو چار مست ہوں
اس کی نظر ٹِکِی ہوئی آنکھوں میں ہے میری
آنکھوں کا میں خمّار کی میخوار مست ہوں
اے مرضِ عشق تجھ پہ ہزاروں سلام ہوں
تیمار دار یار، میں بیمار مست ہوں
اے زخمِ دل ہمیشہ یونہی غم نوازنا
غم کی خوشی ہے، یار ہے غم خوار مست ہوں
یہ دل، یہ دھڑکنیں، یہ سبھی سازِ یار ہیں
بجتا ہے اس کی راگ میں ہر تار مست ہوں
اس کو جہان بھر میں تلاشا، ملا نہیں
اس کو میں دل میں پا کے نمودار مست ہوں
اے یار تیرا عشق ہے سر چڑھ کے بولتا
رکّھا ہوں جب سے سر پہ یہ دستار مست ہوں
کھولا نہ رازِ وصل تیرا، رہنا مطمئن
میں تختِ دار پر سرِ بازار مست ہوں
دیکھے گا میرا یار مجھے وقتِ قتل بھی
میں زیرِ بارِ خنجرِ خوں خوار مست ہوں
دنیا و آخرت میں میرا یار ساتھ ہے
اس پار بھی میں مست ہوں اس پار مست ہوں
رکھتا ہے لاج عشق و محبت کی جو ذکیؔ
ایسے خدا کا ہوں میں پرستار مست ہوں

0
56