| محدود ہے ہر علم مرا صرف خبر تک |
| میں دیکھ بھی سکتا ہوں مگر حدِ نظر تک |
| سدرہ کی حدوں سے ہے پرے میرا تخیل |
| اور اس پہ یہ اعجاز کہ جلتے نہیں پر تک |
| اک وہ کہ حسیں رخ پہ سیاہ داغ سجائیں |
| اک ہم ، ہمیں لگتی ہی نہیں اپنی نظر تک |
| مختار ہیں، جس راہ کو چاہیں اسے چن لیں |
| بے بس ہیں، ہر اک راستہ جائے ترے گھر تک |
| گر شمع سی صورت ہی نصیبہ ہے تو پھر تو |
| ہر رنگ میں جلنا ہے مجھے شب سے سحر تک |
| ہر آہ کو گھونٹا ہے ہر اک اشک پیا ہے |
| کب ہم کو گوارہ تھا تری چشم ہو تر تک |
| جس لفظ میںپنہاں ہوں خرابی کے اشارے |
| پھر کیسے یہ کہدوں کہ بشر میں نہیں شر تک |
| زور آوری ڈھونڈے ہے بچھڑنے کا بہانہ |
| بس میری کہانی بھی ہے شعلے سے شرر تک |
| اللہ رے، نزاکت سی نزاکت ، کوئی سر پر |
| اک پھول بھی رکھ دے تو لچک جائے کمر تک |
| اُس راہ سے منزل ہے مری اور بھی آگے |
| جس راہ میں جلنے لگیں جبریل کے پر تک |
| کیا دیر ہے، اوپر سے گزر جائے گا یارو |
| اک سیلِ خرافات جو چڑھ آیا ہے سر تک |
| جلتا ہوں حبیب اور دھواں بھی نہیں اٹھتا |
| اک ایسی عجب آگ لگی دل سے جگر تک |
معلومات