صبح ہی شام کا منظر ہوا دل
اک گلستان سے کھنڈر ہوا دل
مجھ سے مت پوچھو مری بے تابی
وہ نظر کیا اٹھی ساغر ہوا دل
حسن کی گرہیں کھلیں پے در پے
ایک مدت میں شناور ہوا دل
کیا عمق تھی ترے غم میں جاناں
ایک قطرے سے سمندر ہوا دل
پہلے کچھ خواب سے چہرے تھے مقیم
پھر کسی بے کلی کا گھر ہوا دل
دم بہ دم لاکھ ستم ٹوٹے ہیں
اور یوں موم سے پتھر ہوا دل
دیکھ کر خود کو پریشاں بھی نہیں
کیسی بد حالی سے خوگر ہوا دل
دل کی شاخوں پہ یوں آہیں پھوٹیں
ہوتے ہوتے ہی سخن ور ہوا دل
آخری لمحے پہ یہ سوچتا ہوں
آخرش خوار ہی کیوں کر ہوا دل
لمحہ لمحہ ہوئی ہے وحیِ جنوں
عشق مذہب میں پیمبر ہوا دل
اب تو وہ پہلی سی برسات نہیں
جذبوں کے قحط سے بنجر ہوا دل
پہلے تو آہوں کی آتش بھڑکی
پھر جہنم کے برابر ہوا دل

85